Best Wall Stickers

خلفاء ِ راشدین علیہم الرضوان کی عظمت و شان:

خلفاء ِ راشدین علیہم الرضوان کی عظمت و شان:


    حضرتِ سیِّدُنا انس بن مالک ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے، نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَر، دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَر صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا ارشادِ حقیقت بنیاد ہے: ''میرے حوض کے چار کونے ہیں: پہلے کونے پر ابوبکر ،دوسرے پرعمر ، تیسرے پر عثمان اور چوتھے پر علی ہوں گے ۔ جو ابوبکر سے محبت کرے اور عمر سے بغض رکھے اس کو ابوبکر سیراب نہیں کریں گے اور جو عمر سے محبت رکھے اور عثمان سے بغض رکھے اس کو عمرسیراب نہیں کریں گے اور جو عثمان سے محبت کرے اور علی سے بغض رکھے اس کو عثمان حوض سے نہیں پلائیں گے اور جو علی سے محبت کرے مگر عثمان سے بغض رکھے اس کو علی سیراب نہیں کریں گے تو جس نے ابوبکر سے محبت کی اس نے دین کو قائم کیااور جس نے عمر سے محبت کی وہ ایمان والوں میں لکھا جائے گا،اور جس نے عثمان سے محبت کی وہ نورِ مبین سے منور ہوا اور جس نے علی سے محبت کی تواس نے بھلائی کا کام کیا اور اللہ عَزَّوَجَلَّ بھلائی کرنے والوں کو پسند فرماتاہے۔اور جس نے ان تمام کے متعلق حسنِ ظن رکھا وہ مؤمن ہے اور جو بد گمانی کرے وہ منافق ہے۔''

(الثقات لابن حبان، کتاب من روی عن اتباع التابعین ،الرقم۳۳۱0،محمد بن مقاتل العبادانی،ج۵، ص۴۴۹۔العلل المتناہیۃ لابن الجوزی، حدیث فی فضل الاربعۃ، الحدیث۴0۸،ج۱،ص۲۵۴)

    حضرتِ سیِّدُنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:''ہم حضور سیِّدُ الْمُبَلِّغِیْن، جنابِ رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے اجتماعِ پاک میں بیٹھے ہوئے تھے توحضرتِ سیِّدُنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ حاضر ہوئے،آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم نے استقبال کرتے ہوئے فرمایا:''اپنے مال کے ساتھ غمگساری کرنے والے اور دوسروں کوخود پرترجیح دینے والے کو خوش آمدید!'' پھرحضرتِ سیِّدُنا عمر فارو ق رضی اللہ تعالیٰ عنہ حاضرِخدمت ہوئے تو ارشاد فرمایا:''حق وباطل کے درمیان فرق کرنے والے کو مرحبا! اس شخص کو خوش آمدید جس کے ذریعے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے دین کو کامل کیا اور مسلمانوں کو عزت بخشی ۔''پھرحضرتِ سیِّدُنا عثمانِ غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ حاضر ہوئے تو ارشاد فرمایا: ''میرے داماد اور میری دوبیٹیوں کے شوہر کو خوش آمدید! جس میں میرا نور جمع ہوا، جو اپنی زندگی میں سعادت مند اور موت میں شہید ہے، اس کے قاتل کے لئے نارِجہنم کی بربادی ہے ۔'' پھرحضرتِ سیِّدُنا علی
المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم حاضر ہوئے تو ارشاد فرمایا:''میرے چچازاد بھائی کو خوش آمدید! مجھے اور اسے ایک نور سے پیدا کیا گیا ہے۔''

      (فردوس الاخبارللدیلمی،باب الخاء،الحدیث۲۷۷۶،ج۱،ص۳۷۴مختصرًا)

    (پھر فرمایا:) اے گروۂ مسلمین !ان تمام کی محبت مؤمن کے دل میں ہی اکٹھی ہو سکتی ہے اورمنافق کے دل میں یکجا نہیں ہو سکتی۔ جوان کومحبوب بنالے اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کومحبوب بنالیتاہے اور جو ان سے بغض رکھے اللہ عَزَّوَجَلَّ اسے ناپسند فرماتا ہے۔''
    حضرتِ سیِّدُنا ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے، ایک دن حُسنِ اَخلاق کے پیکر،نبیوں کے تاجور، مَحبوبِ رَبِّ اَکبر عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشادفرمایا:''میں جنت میں داخل ہوا۔ اسی دوران جبکہ میں اس کے باغوں ،نہروں اور درختوں کے گرد گھوم رہاتھا کہ میرا ہاتھ ایک پھل سے مس ہوا، میں نے اسے پکڑا تو وہ میرے ہاتھ میں چار ٹکڑوں میں بٹ گیا، ہر ٹکڑے سے ایک حور نکلی، اگروہ اپنا ایک ناخن ظاہر کردے تو تمام زمین و آسمان والوں کو فتنے میں مبتلا کردے،اور اگراپنی ایک ہتھیلی ظاہر کر دے تواس کی روشنی سورج اور چاند کی روشنی پر غالب آجائے ،اگر وہ تبسم کرے تو اپنی خوشبو سے زمین وآسمان کی درمیانی جگہ کو کستوری سے بھر دے ، میں نے پہلی سے پوچھا:''تم کس کے لئے ہو؟'' بولی :''حضرتِ سیِّدُنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے ۔'' میں نے اسے حکم دیا:''تم اپنے شوہرکے محل کی طرف جاؤ۔'' تو وہ چلی گئی۔ دوسری سے پوچھااس نے کہا:'' میں حضرتِ سیِّدُنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے ہوں۔''اسے بھی میں نے حکم دیا کہ تم اپنے خاوند کے محل میں چلی جاؤ۔'' تو وہ بھی چلی گئی۔ تیسری سے بھی پوچھا:اس نے جواب دیا:''خون سے لت پت ظلماً شہید کئے ہوئے ، حضرتِ سیِّدُنا عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے۔''اسے بھی میں نے اپنے خاوند کے محل کی طرف جانے کاحکم دیاوہ بھی چلی گئی۔ چوتھی سے سوال کیاتووہ کچھ دیر خاموش رہی پھراس نے کہا:''اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم! یارسول اللہ عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! اللہ عَزَّوَجَلَّ نے مجھے حضرتِ سیِّدَتُنا فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے حُسن پر پیدا کیا اور میرا نام ان کے نام پر رکھا اور حضرتِ سیِّدُنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کے ان کے ساتھ نکاح ہونے سے دو ہزار سال قبل اللہ عَزَّوَجَلَّ نے حضرتِ سیِّدُنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے میرا نکاح کر دیا تھا۔''یہ شہنشاہِ مدینہ،قرارِ قلب و سینہ، صاحبِ معطر پسینہ، باعثِ نُزولِ سکینہ، فیض گنجینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے خلفاء راشدین ، انصار اور صحابۂ  کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم ہیں، انہیں بروزِ قیامت عزت والے گھریعنی جنت کی طرف احترام واکرام کے ساتھ لے جایا جائے گا۔
    منقول ہے، حضرتِ سیِّدُنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرتِ سیِّدُنا عثمانِ غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سرکارِ والاتَبار، ہم بے کسوں کے مددگار، شفیعِ روزِ شُمار، دو عالَم کے مالک و مختار باذنِ پروردگارعَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے کسی کام میں مشغول تھے کہ نمازِ عصر کاوقت ہوگیا۔حضرتِ سیِّدُنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرتِ سیِّدُنا عثمانِ غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آگے بڑھ کر امامت کرانے کا
کہاتو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی:''آپ اس کے مجھ سے زیادہ حق دار ہیں کہ رسول اللہ عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے آپ کو مقدّم فرمایااور آپ کی تعریف کی ۔''
     حضرتِ سیِّدُنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:''میں آپ سے آگے نہیں بڑھوں گا کیونکہ میں نے سرکارِ مدینہ، قرارِ قلب سینہ ،با عثِ نُزولِ سکینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو یہ ارشاد فرماتے سنا :''عثمان کتنااچھاانسان ہے، میرا داماد ہے اور میری دوبیٹیوں کا شوہر ہے، اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اس میں میرا نور اکٹھاکر دیاہے۔''
    حضرتِ سیِّدُنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:''میں آپ سے آگے نہیں بڑھوں گا کیونکہ میں نے آپ صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کو یہ فرماتے ہوئے سناہے کہ'' اللہ عَزَّوَجَلَّ نے عمرکے ذریعہ اسلام کو مکمل فرمایا۔''

(الریاض النضرۃ فی مناقب العشرۃ،مناقب امیر المؤمنین عمر،فصل تاسع،جزء ثانی،ج ۱، ص ۳۱۳ ''اکمل''بدلہ''اعز'')

    حضرتِ سیِّدُنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:''میں آپ سے آگے نہیں بڑھوں گا کیونکہ میں نے آپ صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کو یہ فرماتے سناہے کہ '' عثمان سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں۔''

 (صحیح مسلم،کتاب فضائل الصحابۃ،باب من فضائل عثمان بن عفان،الحدیث۲۴0۱ ، ص0 ۱۱0)

    حضرتِ سیِّدُنا عثمانِ غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:''میں آپ سے آگے نہیں بڑھوں گا کیونکہ میں نے آپ صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کو یہ فرماتے سناہے کہ'' اللہ عَزَّوَجَلَّ نے عمرکے ذریعے دین کی تکمیل فرمائی اور مسلمانوں کوعزت بخشی۔''

 (الریاض النضرۃ فی مناقب العشرۃ،مناقب امیر المؤمنین عمر،فصل تاسع،جزء ثانی،ج ۱، ص ۳۱۳''اکمل''بدلہ''اعز'')

    حضرتِ سیِّدُنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:''میں آپ سے آگے نہیں بڑھوں گا کیونکہ میں نے آپ صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کو یہ فرماتے سناہے کہ ''عثمان قرآن پاک کو جمع کریگا،اور یہ رحمن عَزَّوَجَلَّ کامحبوب ہے۔''

 (المستدرک،کتاب التفسیر،باب جمع القرآن لم یکن مرۃ واحدۃ،ج۲ص۶0۳،مفھوماً)

    حضرتِ سیِّدُنا عثمانِ غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:''میں آپ سے آگے نہیں بڑھوں گا کیونکہ میں نے حضورصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کو یہ فرماتے سنا کہ'' عمر کتنا اچھا انسان ہے، بیواؤں اور یتیموں کی خبرگیری کرتاہے، اُن کے لئے اس وقت کھانا لاتاہے جب لوگ عالَمِ خواب میں ہوتے ہیں۔''

(جامع الترمذی،ابواب المناقب،باب مناقب معاذ بن جبل،الحدیث۳۷۹۵،ص ۲0۴۲،مختصرًا)

    حضرتِ سیِّدُنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:''میں آپ سے آگے نہیں بڑھوں گا کیونکہ میں نے آپ صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو یہ فرماتے سناہے کہ'' اللہ عَزَّوَجَلَّ نے جیشُ العُسرہ (یعنی غزوۂ تبوک کا لشکر) تیار کرنے والے عثمان کی مغفرت فرمادی ہے۔''

 (الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی،الرقم۱۶۹اسحاق بن ابراھیم ، ج۱،ص۵۵۳،بتغیرٍ)
    حضرت سیِّدُنا عثمانِ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:''میں آپ سے آگے نہیں بڑھوں گا کیونکہ میں نے آپ صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو یہ دعا فرماتے سنا کہ ''یااللہ عَزَّوَجَلَّ ! عمر بن خطاب کے ذریعے اسلام کو عزت عطا فرما۔'' اور رسول اللہ عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے آپ کانام فاروق رکھا۔اور اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ کے ذریعے حق وباطل کے درمیان فرق کیا۔''

 (سنن ابن ماجۃ،کتاب السنۃ، باب فضل عمررضی اللہ عنہ،الحدیث۱0۵،ص۲۴۸۳۔ الطبقات الکبرٰی لابن سعد، الرقم ۵۶،اسلام عمر،ج۳،ص۲0۵)

    اس واقعہ کی خبر جب حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کو ہوئی تو آپ صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم نے دونوں کے لئے دعا فرمائی اور ایک دوسرے سے حسنِ ادب کے ساتھ پیش آنے پر ان کی تعریف فرمائی۔
    حضرتِ سیِّدُنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے، ایک دن حضرتِ سیِّدُنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور مولیٰ مشکل کشاحضرتِ سیِّدُنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم آپ صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کے حجرۂ اقدس کے پاس حاضر ہوئے۔ حضرتِ سیِّدُنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے حضرتِ سیِّدُنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے عرض کی :''آپ آگے بڑھ کر دروازے پر دستک دیں اور اسے کھولنے کی دیرینہ التجا کریں۔'' حضرتِ سیِّدُنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:''اے علی! آپ آگے بڑھئے۔''
    حضرتِ سیِّدُنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے فرمایا:میں ایسے شخص سے آگے نہیں بڑھوں گا جس کے متعلق میں نے آپ صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ''میرے بعد کسی ایسے شخص پرسورج طلوع وغروب نہ ہوگا جو ابوبکر صدیق سے افضل ہو۔''

 (الثقات لابن حبان، کتاب اتباع التابعین ،الرقم۲۶۸۹عبد الملک بن عبدالعزیز،ج۴،ص۵۷) 
(حلیہ الاولیاء،عطاء بن ابی رباح ، الحدیث ۴۳۱۵،ج۳،ص۳۷۳)

    حضرتِ سیِّدُنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:میں ایسے شخص سے آگے نہیں بڑھوں گا جس کے متعلق آپ صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:''میں نے سب سے بہترین خاتون(یعنی حضرتِ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا)سب سے بہترین مرد (یعنی حضرتِ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ)کو عطا کی۔''
    حضرتِ سیِّدُنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے فرمایا: ''میں ایسے شخص سے آگے نہیں بڑھوں گا جس کے حق میں حضور سیِّدُ الْمُبَلِّغِیْن، جنابِ رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ''جوحضرتِ ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلٰوۃوالسلام کے سینۂ مبارکہ کو دیکھنا چاہے وہ ابوبکر صدیق کا سینہ دیکھ لے ۔''
    حضرتِ سیِّدُنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:''میں ایسے شخص سے آگے نہیں بڑھوں گا جس کی شان میں حضورنبئ پاک، صاحبِ لَوْلاک، سیّاحِ اَفلاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:''جوحضرتِ آدم علیہ الصلٰوۃوالسلام، حضرتِ یوسف علیہ الصلٰوۃوالسلام اور ان کا حُسن ، حضرتِ موسیٰ علیہ الصلٰوۃوالسلام اور ان کی نماز،حضرتِ عیسیٰ علیہ الصلٰوۃوالسلام اور ان کا زہد اور مجھے اور

میری صورت دیکھنا چاہے و ہ علی کو دیکھ لے۔''
    حضرتِ سیِّدُنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے فرمایا:''میں ایسے شخص سے آگے نہیں بڑھوں گا جس کے حق میں نبئ مُکَرَّم،نُورِ مُجسَّم، رسولِ اَکرم، شہنشاہ ِبنی آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:'' جب قیامت کی گھڑیوں میں حسرت وندامت کے دن تمام مخلوق جمع ہوگی تو حق تعالیٰ کی طرف سے ایک منادی ندا کر ے گا:''اے ابوبکر !تم اور تم سے محبت کرنے والے جنت میں داخل ہو جائیں۔''
    حضرتِ سیِّدُنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:''میں ایسے شخص سے آگے نہیں بڑھوں گا جس کی طرف غزوہ حنین اور غزوۂ خیبر کے دن نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَر، دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَر َ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے کھجور اور دودھ ہدیۃً بھیجااور ارشاد فرمایا: ''یہ فتح ونصرت کے طالب کی طرف سے علی بن ابی طالب کی طرف ہدیہ ہے۔''
     حضرتِ سیِّدُنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے فرمایا:''میں ایسے شخص سے آگے نہیں بڑھوں گا جس کے حق میں سرکارِ والا تَبار، ہم بے کسوں کے مددگار، شفیعِ روزِ شُمار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:''اے ابو بکر! تم میری آنکھ (کی ٹھنڈک ) ہو ۔ ''
    حضرتِ سیِّدُنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:میں ایسے شخص سے آگے نہیں بڑھوں گا جس کے حق میں تاجدارِ رِسالت، شہنشاہِ نُبوت، مَخْزنِ جودوسخاوت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:''علی جنت کی سواریوں میں سے کسی سواری پر آئیں گے، اور ایک منادی ندا کریگا:''اے محمد(صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم) ! دُنیامیں اپ کا حسین والد اور خوبصورت بھائی تھا، حسین والدحضرتِ ابراہیم خلیل اللہ ہیں اور خوب صورت بھائی حضرتِ علی ہیں۔''
    حضرتِ سیِّدُنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے فرمایا:میں ایسے شخص سے آگے نہیں بڑھوں گا جس کے حق میں اللہ کے مَحبوب، دانائے غُیوب، مُنَزَّہ ٌعَنِ الْعُیوب عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:''جب قیامت کادن ہوگاتو داروغۂ جنت حضرتِ رضوان جنت اور جہنم کی چابیاں لائے گااور کہے گا:''اے ابوبکر!اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ کو سلام کہتاہے اور فرماتاہے کہ یہ جنت و دوزخ کی چابیاں ہیں جسے چاہو جنت میں بھیج دو اور جسے چاہو جہنم میں بھیج دو۔'' 
    حضرتِ سیِّدُنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:میں ایسے شخص سے آگے نہیں بڑھوں گا جس کے حق میں حُسنِ اَخلاق کے پیکر،نبیوں کے تاجور، مَحبوبِ رَبِّ اَکبر عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:''حضرتِ جبرائیل میرے پاس حاضر ہوئے اور عرض کی: ''یارسول اللہ! اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کو سلام کہتاہے اور فرماتاہے کہ میں آپ صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم سے اور علی سے محبت کرتا ہوں تو میں نے سجدۂ شکر ادا کیا، (پھر فرمایا:)میں فاطمہ سے محبت کرتاہوں تومیں نے پھر سجدۂ شکر ادا کیا
،(پھر فرمایا:)میں حسن و حسین سے محبت کرتاہوں تو میں نے پھر سجدۂ شکر اداکیا۔''
    حضرتِ سیِّدُنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے فرمایا:میں ایسے شخص سے آگے نہیں بڑھوں گا جس کے حق میں سیِّدُ الْمُبَلِّغِیْن، جنابِ رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:'' اگر ابوبکر کا ایمان اہلِ زمین کے ایمان کے ساتھ تولا جائے تو ابو بکر کا ایمان ان سب پر بھاری ہو جائے ۔''

 (شعب الایمان للبیھقی،باب القول فی زیادۃ الایمان۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث۳۶،ج۱،ص۶۹،راوی عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ)

    حضرتِ سیِّدُنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:میں ایسے شخص سے آگے نہیں بڑھوں گا جس کے حق میں سرکارِ مدینہ، قرارِ قلب و سینہ ،با عثِ نُزولِ سکینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:'' علی قیامت کے دن اپنی اولاد اور زوجہ کے ساتھ اونٹوں کی سواریوں پرسوار ہو کر آئیں گے، لوگ پوچھیں گے :''یہ کون سے نبی ہیں؟''تو ایک منادی ندا کریگا:''یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا دوست علی بن ابی طالب ہے۔''

    حضرتِ سیِّدُنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے فرمایا:میں ایسے شخص سے آگے نہیں بڑھوں گا جس کے حق میں نبئ کریم، ر ء وف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:'' کل بروزِ قیامت اہلِ محشر جنت کے آٹھوں دروازوں سے یہ آواز سنیں گے :''اے صدیق اکبر! جس دروازے سے چاہو (جنت میں) داخل ہوجاؤ۔''
    حضرتِ سیِّدُنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:میں ایسے شخص سے آگے نہیں بڑھوں گا جس کے حق میں اللہ کے پیارے حبیب ،حبیب لبیب عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:''(جنت میں)میرے اورحضرتِ ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلٰوۃ والسلام کے محل کے درمیان علی بن ابی طالب کا محل ہے۔''
    حضرتِ سیِّدُنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے فرمایا:میں ایسے شخص سے آگے نہیں بڑھوں گا جس کے حق میں حضور پرنور، شافعِ یومُ النشور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:''آسمان والے مقرّبینِ بارگاہِ الٰہی، نوری فرشتے اور ملأاعلیٰ روزانہ ابوبکر صدیق کا دیدار کرتے ہیں۔''
    حضرتِ سیِّدُنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:میں ایسے شخص سے آگے نہیں بڑھوں گا جس کی شان میں اور جس کے گھر والوں کی شان میں اللہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے:

(3) وَ یُطْعِمُوۡنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیۡنًا وَّ یَتِیۡمًا وَّ اَسِیۡرًا ﴿8﴾

ترجمۂ کنزالایمان:اور کھاناکھلاتے ہیں اس کی محبت پرمسکین اور یتیم اور اسیر کو۔(۱)(پ29،الدھر :8)
    حضرتِ سیِّدُنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے ارشاد فرمایا:میں ایسے شخص سے آگے نہیں بڑھوں گا جس کی شان 
اللہ عَزَّوَجَلَّ یوں بیان فرماتا ہے:

(4) وَالَّذِیۡ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَ صَدَّقَ بِہٖۤ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُتَّقُوۡنَ ﴿33﴾

ترجمہ کنزالایمان:اور وہ جو یہ سچ لے کر تشریف لائے اور وہ جنہوں نے ان کی تصدیق کی یہی ڈر والے ہیں۔(پ24،الزمر:33)
    اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے حضرتِ سیِّدُنا جبرائیلِ امین علیہ الصلٰوۃوالسلام نے حضور نبئ پاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کی :''یارسول اللہ عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ کو سلام کہتا ہے اور فرماتاہے کہ ساتوں آسمانوں کے ملائکہ اس وقت ابو بکر صدیق اور علی المرتضیٰ کی طرف دیکھ رہے ہیں اور ان کے مابین ہونے والے حسنِ جواب اور حسنِ ادب کو سماعت کر رہے ہیں، آپ صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم ان کے پاس تشریف لے جایئے اور تیسرے فرد ہو جائیے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا و رحمت نے انہیں اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے،اور ان کے ساتھ حسنِ ادب اور حسنِ اسلام و ایمان کو خاص کر دیا ہے۔ چنانچہ، حضور نبئ کریم،رء ُوف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم ان دونوں کے پاس تشریف لے گئے اور ان کو ویسے ہی پایا جیسا کہ حضرتِ سیِّدُنا جبرائیلِ امین علیہ الصلٰوۃ والسلام نے بیان کیا تھاپھر آپ صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے دونوں کے چہروں کو بوسۂ رحمت سے نوازا اور ارشاد فرمایا : ''اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! اگر تمام سمندر سیاہی ہو جائیں، تمام درخت قلم بن جائیں، آسمان وزمین والے کتاب بن جائیں تو بھی تمہارے فضل ومرتبہ اور تمہارے اجر وثواب کو لکھنے سے عاجز آ جائیں گے۔''
1۔۔۔۔۔۔مفسر شہیر، خلیفۂ اعلیٰ حضرت، صدرالافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی تفسیر خزائن العرفان میں اس آیۂ مبارکہ۔۔۔ کے تحت فرماتے ہیں: ''یعنی ایسی حالت میں جبکہ خود انہیں کھانے کی حاجت و خواہش ہو اور بعض مفسّرین نے اس کے یہ معنٰی لئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی محبّت میں کھلاتے ہیں۔ شانِ نزول: یہ آیت حضرتِ علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، اور حضرتِ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور ان کی کنیز فِضَّہ کے حق میں نازل ہوئی ۔حسنینِ کریمین رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیمار ہوئے۔ ان حضرات نے اُن کی صحت پر تین روزوں کی نذر مانی۔ اللہ تعالیٰ نے صحت دی ۔نذر کی وفا کا وقت آیا۔ سب صاحبوں نے روزے رکھے۔ حضرتِ علی مرتضٰی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ایک یہودی سے تین صاع (صاع ایک پیمانہ ہے) جَو لائے۔ حضرتِ خاتون ِ جنّت نے ایک ایک صاع تینوں دن پکایا لیکن جب افطار کا وقت آیا اور روٹیاں سامنے رکھیں تو ایک روز مسکین، ایک روز یتیم، ایک روز اسیر(قیدی) آیا اور تینوں روز یہ سب روٹیاں ان لوگوں کو دے دی گئیں اور صرف پانی سے افطار کرکے اگلا روزہ رکھ لیا گیا۔''

خلفاء ِ راشدین علیہم الرضوان کی عظمت و شان: خلفاء ِ راشدین علیہم الرضوان کی عظمت و شان: Reviewed by WafaSoft on March 26, 2020 Rating: 5

No comments:

Comments

Powered by Blogger.